مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا ہے کہ امریکہ اپنی جابرانہ پالیسیوں اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت کے باعث دنیا کی سلامتی کے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ میں انہوں نے گزشتہ دو دنوں کے دوران ہونے والی سفارتی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی، سعودی عرب اور جنوبی کوریا کے وفود نے تہران کا دورہ کیا اور وزیر خارجہ سے اہم ملاقاتیں کیں۔
بقائی نے کہا کہ عالمی سطح پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جبکہ خطے میں سب سے بڑا خطرہ اب بھی صہیونی حکومت ہے۔ لبنان، شام اور فلسطین کی صورتحال نازک ہے۔ اگرچہ بظاہر جنگ بندی موجود ہے، مگر اس کی خلاف ورزیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لبنان میں جنگ بندی کی ہزاروں مرتبہ خلاف ورزیاں ہوچکی ہیں اور درجنوں لبنانی شہری شہید ہوگئے ہیں۔ غزہ میں بھی جنگ بندی کی 600 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔
امریکی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ جارحانہ رویے کی وجہ سے امریکہ عالمی امن کے لیے سب سے خطرناک ملک بن گیا ہے۔ انہوں نے دوسرے ممالک میں امریکی مداخلتوں کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے وینزویلا، کیوبا، نکاراگوا، برازیل اور میکسیکو جیسے ملکوں کو دھمکیاں دیں۔ امریکہ کی جانب سے کسی خودمختار ملک کی فضائی حدود بند کرنے کا اعلان پہلے کبھی نہیں کیا گیا اور یہ تمام بین الاقوامی اصولوں، خصوصا فضائی سلامتی کے ضابطوں کے خلاف ہے۔ امریکہ نے جنوبی افریقہ کو بھی دھمکی دی ہے کہ وہ G20 سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرے۔
بقائی کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے صہیونی حکومت کی کھلی اور مکمل حمایت نے امریکہ کو عملی طور پر اس کے جرائم میں شریک بنا دیا ہے۔ اگر عالمی نظام اپنے اصولوں کے مطابق چل رہا ہوتا تو سلامتی کونسل کو امریکہ کے ان اقدامات پر کارروائی کرنی چاہیے تھی، کیونکہ یہ عالمی امن و سلامتی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
آسٹریلیا کی جانب سے سپاہ پاسداران انقلاب پر حالیہ الزامات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایران نے اپنا مؤقف باضابطہ طور پر پیش کر دیا ہے۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام نہ قانونی حیثیت رکھتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی حقیقی بنیاد موجود ہے۔ یہ فیصلہ دراصل وہی سلسلہ ہے جو کینبرا نے گزشتہ چند ماہ کے دوران اپنایا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ آسٹریلوی حکام کو پہلے بھی گمراہ کن اطلاعات فراہم کی گئیں جس کے نتیجے میں انہوں نے ایران کے ساتھ سفارتی روابط کم کردیے۔ لیکن خود آسٹریلوی حکام یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ یہودیوں سے متعلق کسی بھی واقعے میں ایران کا کوئی کردار نہیں تھا۔ آسٹریلیا کا یہ فیصلہ صرف اور صرف صہیونی حکومت کو خوش کرنے کی سیاسی کوشش ہے۔
بقائی نے تصدیق کی کہ سعودی نائب وزیرخارجہ کا حالیہ دورۂ تہران اس عمل کا تسلسل ہے جو دو سال قبل شروع ہوا تھا۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات مسلسل بہتر ہو رہے ہیں۔ اس دورے میں دوطرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ فلسطین، لبنان اور شام جیسے علاقائی معاملات پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک اس عمل کو جاری رکھنے کے خواہاں ہیں تاکہ مغربی ایشیا میں استحکام کو مزید مضبوط بنایا جاسکے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے لبنان میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بارہا جنگ بندی معاہدوں پر دستخط تو کرتا ہے، مگر انہیں توڑنے میں لمحہ نہیں لگاتا۔ یونیفل کے ترجمان نے 10 ہزار سے زائد خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی ہے، جو اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ عملی طور پر کوئی جنگ بندی موجود ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نہ صرف ہمسایہ ممالک کے امن و استحکام کو نشانہ بناتا ہے بلکہ ان کی ترقیاتی پیش رفت میں بھی مانع ایجاد کرتا ہے۔ صہیونی حکومت کے جارحانہ اقدامات کے پیش نظر ان ممالک کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے جو جنگ بندی کے ضامن ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ ایران کا مؤقف ہمیشہ واضح اور مستحکم رہا ہے۔ بامعنی مذاکرات اسی وقت ممکن ہیں جب تمام فریق ایک دوسرے کے حقوق اور جائز تحفظات کو تسلیم کریں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایران نے کوئی اشتعال انگیز قدم نہیں اٹھایا، بلکہ صورتحال کی پیچیدگی کی اصل وجہ یورپی ٹرائیکا کی جانب سے پیش کی گئی وہ قراردادیں ہیں جنہوں نے مذاکراتی عمل کو بند گلی میں دھکیل دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یورپی ممالک کے ساتھ سفارتی رابطے جاری ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ باضابطہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوچکے ہیں۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کلاس سے حالیہ ٹیلی فونک رابطہ بھی اسی جاری سفارتی عمل کا حصہ تھا اور یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔
آپ کا تبصرہ